Thursday, September 24, 2009

تم مجھے بھول جاو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں

تم مجھے بھول جاو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں
ناراض نہ ہو مسکراو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں


ميں تو اک بنجر زمين کي مانند ہوں کاشی
کہيں اور پيار کا پيڑ لگاو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں


ميں تو بکھرا ہوں تمہيں بھی بکھير دوں گا
جاو، کہيں او رقسمت آزماو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں


ميں ويران ہوں مجھے آباد کرنے کی کوشش نہ کرو
تم اپنا آشيانہ سجاو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں


ميں تو نفرت ہوں تو محبت کا سمندر ہے
مجھے دل سے نہ لگاو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں


ميں تو غموں کا چراغ ہوں مجھے روشن نہ کرنا
کہيں جل نہ جاو، سنبھل جاو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں


ميرے چاروں اطراف موت منڈلاتي ہے رات دن
ميرے قريب نہ آو، پلٹ جاو، ميں تمہارے قابل نہيں ہوں 

کہو مجھ سے محبت ہے

محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھاہے 
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
ا سے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو 
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ‘ لہو میں جگمگاتی ہو 
ہزاروں طرح کے دلکش ‘ حسیں ہالے بناتی ہو 
ا سے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے 
محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ’’مجھ سے محبت ہے ‘‘
کہو ’’مجھ سے محبت ہے ‘‘
تمہیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری ‘ستاروں سے سوا روشن
پہاڑوں کی طرح قائم ‘ ہوا ئوں کی طرح دائم
زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
محبت کے کنائے ہیں ‘ وفا کے استعار ے ہیں ہمارے ہیں
ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں سنہر ا دن نکلتا ہے
محبت جس طرف جائے ‘ زمانہ ساتھ چلتا ہے ‘‘
کچھ ایسی بے سکو نی ہے وفا کی سر زمیوں میں
کہ جو اہل محبت کی سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پاراکہ جیسے شام کاتارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں ر ہتی ہے ‘
گماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے الفت کا 
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خد شوں میں رہتی ہے ‘
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے ‘ وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں
تمہیں مجھ سے محبت ہے
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر
دھیرے سے کہتا ہے
’’یہ سچ ہے نا 
ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی 
دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
ا سی کا نام چاہت ہے 
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے 
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے 


امجد اسلام امجد

مُحبت جھوٹ لگتی ہے مُجھے

 اک کھوکھلا جذبہ
جسے اظہار کی ہر وقت خواہش ہو
کہے جانے کی سُننے کی
جسے ہر پل ضرورت ہو
“مُجھے تم سے مُحبت ہے “
نہ جانے روز کتنے لوگ اس جُملے کو سنُنے کے لیئے
بیدار ہوتے ہیں
یہ ایسا جھوٹ ہے جس کا سحر صدیوں سے طاری ہے
مگر جاناں
مُحبت جب کبھی اظہار کو ترسے
کوئی تُم سے اگر کہہ دے
“مُجھے تم سے مُحبت ہے ‘‘
تو اُسکی بات مت سُننا
مُحبت روح سے پھوٹے
مُحبت عکس بن جائے
تو تُم کو پھر یقیں آئے
کہ میں نے سچ کہا تُم سے
مُحبت روح بن جائے
تو پھر اُسکا یقیں کرنا
وگرنا ایک جُملہ کوئی کتنی بار دُہرائے
'کہے جائے ‘ نہی سُننا
'مُحبت جھوٹ ہے جاناں


اگر اظہار کی اسکو ضرورت ہے

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں 
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا 


تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو 
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے 
اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر 
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے 
تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا 
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا 


اپنے جذبات میں نغمات رچانے کے لیے 
میں نے دھڑکن کی طرح دل میں بسایا ہے تجھے 
میں تصور بھی جدائی کا بھلا کیسے کروں 
میں نے قسمت کی قسمت کی لکیروں ‌سے چرایا ہے تجھے 
پیار کا بن کے نگہبان تجھے چاہوں گا 
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا 


تیری ہر چاپ سے جلتے ہیں خیالوں‌میں چراغ 
جب بھی تو آئے جگاتا ہوا جادو آئے 
تجھ کو چھو لوں‌ تو پھر اے جانِ تمنا مجھ کو 
دیر تک اپنے بدن سے تری خوشبو آئے 
تو بہاروں کا ہے عنوان تجھے چاہوں گا 
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا 


زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں 
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا


قتیل شفائی

اس دل ميں سلامت ہے اب تک

اس دل ميں سلامت ہے اب تک
تصوير بکھرتی ہے يادوں کی
زنجير بکھرتے وعدوں کی
پونجی ناکام ارادوں کی
کچھ دور انمول خيالوں کے
اک سچا روپ حقيقت کا
اک جھوٹا لفظ محبت کا

Tuesday, September 15, 2009

ہراس

تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
میرے تخئیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے
یوں اچانک ترے عارض کا خیال آتا ہے
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے

تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے مرے ذہن میں لہراتی ہے
رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
ترے انفاس، ترے جسم کی آنچ آتی ہے

میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کردوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے
رات کے خواب اجالے میں بیاں تو کردوں
ان حسیں خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے

تیری سانسوں کی تھکن، تیری نگاہوں کا سکوت
درحقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم، وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو

سوچتا ہوں کہ تجھے مل کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مقسوم سمجھ لوں تو کہوں
میں ترے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں
تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں

کہیں ایسا نہ ہو پاؤں مرے تھرّا جائیں
اور تری مرمریں بانہوں کا سہارا نہ ملے
اشک بہتے رہیں خاموش سیہ راتوں میں
اور ترے ریشمی آنچل کا کنارا نہ ملے


ساحر لدھیانوی

ہے دُعا یاد مگر حرفِ دُعا یاد نہیں

ہے دُعا یاد مگر حرفِ دُعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ دعا یاد نہیں


ہم نے جن کے لئیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی، عہدِ وفا یاد نہیں


زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں


میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں


کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاء یاد نہیں


صرف دھندلاتے ستارے کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے جدا، یاد نہیں


آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں


ساغر صدیقی

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
ہیں لاکھوں روگ زمانے میں ، کیوں عشق ہے رسوا بیچارا
ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی ، انسان کو رکھتیں دکھیارا
ہاں بے کل بےکل رہتا ہے ، ہو پیت میں جس نے جی ہارا
پر شام سے لے کر صبح تلک یوں کون پھرے گا آوارہ
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
یہ بات عجیب سناتے ہو ، وہ دنیا سے بے آس ہوئے
اک نام سنا اور غش کھایا ، اک ذکر پہ آپ اداس ہوئے
وہ علم میں افلاطون سنے، وہ شعر میں تلسی داس ہوئے
وہ تیس برس کے ہوتے ہیں ، وہ بی-اے،ایم-اے پاس ہوئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
گر عشق کیا ہے تب کیا ہے، کیوں شاد نہیں آباد نہیں
جو جان لیے بن ٹل نہ سکے ، یہ ایسی بھی افتاد نہیں
یہ بات تو تم بھی مانو گے، وہ قیس نہیں فرہاد نہیں
کیا ہجر کا دارو مشکل ہے؟ کیا وصل کے نسخے یاد نہیں؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے، تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی اس گھر میں تھے مہمان گئے
پر اس سے تو کچھ بات نہ کی، انجان رہے، انجان گئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
جو ہم سے کہو ہم کرتے ہیں، کیا انشا کو سمجھانا ہے؟
اس لڑکی سے بھی کہہ لیں گے ، گو اب کچھ اور زمانہ ہے
یا چھوڑیں یا تکمیل کریں ، یہ عشق ہے یا افسانہ ہے؟
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے، یہ کیسا تانا بانا ہے ؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں

ابن انشاء


کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ھے کچھ نے کہا چہرا تیرا

ہم بھی وہیں موجودتھےہم سےبھی سب نےپوچھا کیے
ہم ہنس دیئے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا

اس شہرمیں کس سےملیں ہم سےتو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ، ہر شخص دیوانہ تیرا

تو با وفا ، تو مہرباں ، ہم اور تجھ سے بد گماں ؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا ، یہ وصف کیوں ٹھہرا تیرا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ھی بن جائیں مگر
جنگل تیرے ، پربت تیرے ، بستی تیری ، صحرا تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر ؟ ہم ھیں فقیر رو ہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا ، دامن کبھی تھاما تیرا

ہاں ہاں تیری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا تیرا

بے درد سننی ھو تو چل کہتا ھے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا ، رسوا تیرا ، شاعر تیرا ، انشاء تیرا

ابنِ انشاء

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

ناصر کاظمی

اے عشق کہیں لے چل

اے عشق کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کھویّا ہے
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آپس میں چھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا
تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا
جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا
للہ وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
وہ تیر ہو ساگر کی، رُت چھائی ہو پھاگن کی
پھولوں سے مہکتی ہوِ پُروائی گھنے بَن کی
یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی
جی بس میں نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
قدرت ہو حمایت پر، ہمدرد ہو قسمت بھی
سلمٰی بھی ہو پہلو میں، سلمٰی کی محبّت بھی
ہر شے سے فراغت ہو، اور تیری عنایت بھی
اے طفلِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں، اک طُور کی وادی میں
حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں
تا خلدِ بریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں
کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں
یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں
اے زہرہ جبیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں
ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں
اے خضرِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی بہشت آگیں وادی میں پہنچ جائیں
جس میں کبھی دنیا کے، غم دل کو نہ تڑپائیں
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
لے چل تُو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

اک بار کہو تم میری ہو

ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک، چندا، تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دُور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو، تم میری ہو
دل منزل منزل بھٹکے تو؟
دل اور کہیں جا اٹکے تو؟
ہم خوش دل ،خوش دل کیونکر ہوں
جب دامن دامن پاتھر ہوں
جب آنگن آنگن بیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
کیا جھگڑا سوُد خسارے کا،
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ابنِ انشاء